Presentation is loading. Please wait.

Presentation is loading. Please wait.

تشدد پرقابو پانا اور اس کی شدت میں کمی لانا

Similar presentations


Presentation on theme: "تشدد پرقابو پانا اور اس کی شدت میں کمی لانا"— Presentation transcript:

1 تشدد پرقابو پانا اور اس کی شدت میں کمی لانا
طبی اداروں کے لیے ایک تربیتی پروگرام اُردو فاونٹ اس ویب سائٹ سے ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے۔

2 سہولت کار کا تعارف Introducing yourself سہولت کار اپنا تعارف کرائے
مختصر انداز میں اپنا تعلیمی پس منظر بیان کرے۔ شرکأ پر واضح کرے کہ وہ اس تربیتی ورکشاپ کے دوران دو زبانیں استعمال کرے گا/گی۔

3 سرگرمی 1 اپنے ساتھی سے اپنا تعارف کرائیں اپنا نام پیشہ ورانہ تجربہ
اپنے ساتھی سے اپنا تعارف کرائیں   اپنا نام پیشہ ورانہ تجربہ موجودہ ذمہ داری اور اپنے بارے میں کوئی دلچسپ بات بتائیں۔

4 تربیت کی ترتیب وقت دورانیہ مقصد موضوع حصہ 9:00 am 15 منٹ
تربیت کار،شرکاء کا تعارف اور عملی اتفاق رائے 9:15 am قبل از تربیت ٹیسٹ 9:30 am 45 منٹ تربیت کے مقاصد کو سمجھنا ، شرکاء سے تعلقِ خاطر اور متعلقہ حالات سے مطابقت پیدا کرنا ’’طبی امداد خطرے میں‘‘ (HCiD)پراجیکٹ اور کراچی میں طبی عملے کے خلاف تشدد پر ہونے والی تحقیق کے نتائج کا تعارف 1 تشدد کی اقسام اورطبی عملےپراِس کے اثرات پر بحث تشدد ، اس کی اقسام اور طبی عملے پر اِس کے اثرات کو سمجھنا 10:15 am 90 منٹ ممکنہ تشدد کے خطرے کی علامات کی نشاندہی؛ روک تھام میں مددگار رویوں کا مظاہرہ کرنا ؛ تشدد کی صورتحال سے نمٹنے کے طریقے وضع کرنا پر تشدد صورت حال پر قابو پانا 2 11:45 am بات چیت کی مہارتوں کی اہمیت کو سمجھنا اور پرتشدد صورت حال پر قابو پانے میں دردمندانہ رویے کا عملی مظاہرہ کرنا طبی امداد میں بات چیت کی مہارتوں کی اہمیت 3 12:45 pm سیکھے گئے اہم نکات کا خلاصہ ؛آراء اور بعد از تربیت ٹیسٹ 1:00 pm اختتامی کلمات اور کھانا

5 سرگرمی 1 (جاری) آپ اس ورکشاپ کے ذریعے کیا سیکھنے کی توقع رکھتے ہیں؟
آپ اس ورکشاپ کے ذریعے کیا سیکھنے کی توقع رکھتے ہیں؟ Write on the board

6 تربیت کے مقاصد اس تربیتی ورکشاپ کے مقاصدطبی عملے کی مدد کرناہے تاکہ وہ: انسانی جسم پرصدمے کےاثرات کوسمجھ سکیں اور ان میں اداراتی سطح پر ہونے والے تشدد کے واقعات سے نمٹنے کی صلاحیت(مسئلے کی جانب باضابطہ حساسیت)پیدا ہوسکے۔ سمجھ سکیں کہ کون سے عوامل تشدد میں اضافے اور کمی کا باعث بنتے ہیں اور وہ تشدد کے واقعات میں کمی لانے کی مہارتیں سیکھ سکیں ۔ تیمارداروں کا دُکھ سمجھتے ہوئے ہمدردی کا اظہار کرسکیں۔

7 حصہ اول تشدد اور ذہنی دباؤ کو سمجھنا

8 مقاصد انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس کےپراجیکٹ ’’طبی امدادخطرےمیں‘‘ (HCiD) کے کردار کے بارے میں آگہی پیدا کرنا؛ طبی عملے کے خلاف تشدد پر ہونے والی تحقیق سے حاصل شدہ نتائج پر بات چیت کرنا؛ طبی اداروں میں تشدد کی اقسام پر بات چیت کرنا؛ مختلف طبی اداروں میں تشدد کی راہ ہموار کرنے والے عوامل کی شناخت؛ طبی عملے پر تشدد کے اثرات اور اس کی روک تھام پر غور کرنا۔

9 تشدد کی بنیادی تعریف انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس(IFRC)کے مطابق کسی تشدد کی جملہ اشکال کی بنیاد طاقت کے غلط استعمال پر ہے۔‘‘ عالمی ادارۂ صحت(WHO)کے نزدیک تشدد ’’جسمانی زور یا طاقت کا دانستہ استعمال یا ایسی طاقت کے استعمال کی دھمکی ہے جس کا ہدف خود اپنی ذات ،کوئی دوسرا فرد ،یا کمیونٹی کے افراد کا کوئی گروہ ہوسکتا ہے اور جس کا نتیجہ ہدف کے زخمی ،ہلاک ہونے یا نفسیاتی نقصان ،نشوو نما میں رُکاوٹ یا وسائل سے محرومی کی صورت میں نکلنےکا قوی امکان ہو۔

10 ’’طبی امداد خطرے میں‘‘ پر کی جانےوالی تحقیق کا تعارف
“’’طبی امداد خطرے میں‘‘(HCiD)پراجیکٹ انٹرنیشنل ریڈکراس اور ریڈ کریسنٹ(ہلالِ احمر)تحریک کا ایک مشترکہ اقدام ہے جس کا مقصد مریضوں اور طبی عملے پر تشدد کے ساتھ ساتھ عمارتوں اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑجیسے اہم مسئلے سے نمٹنا ہے۔ اِس کے علاوہ اس منصوبے کا مقصد تشدد سے متاثرہ ماحول میں طبی سہولیات کی محفوظ فراہمی اور ان سہولیات تک لوگوں کی محفوظ رسائی کو یقینی بنانا ہے۔ منصوبے ’طبی امداد خطرے میں ‘ کا بنیادی تصور پیش کریں اور کراچی رپورٹ کی روشنی میں منصوبے کے اہم نکات سامنے لائیں ۔ منصوبہ بین الاقوامی ریڈ کراس اور ہلال احمر تحریک کا مشترکہ اقدام ہے جس کا مقصد مریضوں ، طبی امداد پہنچانے والے عملے کے خلاف تشدد اور سہولیات کی توڑ پھوڑ کے مسئلہ کا حل ہے ۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد تشدد کے ماحول میں صحت کی سہولیات تک محفوظ رسائی ممکن بنانا ہے ۔ ’طبی امداد خطرے میں ‘ کو کئی اشکال میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ یہ سہولت کار پر ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق موثر انداز میں اس کا تعارف کراسکتا /سکتی ہے۔

11 کراچی کے مختلف مراکز پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج
کراچی کے مختلف مراکز پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج اس تحقیق نے درج ذیل اہم سوالات کے جواب فراہم کئے۔ کیا طبی امداد فراہم کرنے والے اداروں کے عملے اوراملاک کو تشدد اور توڑ پھوڑ کا سامنا ہے؟ تشددکا نشانہ کون بنتا ہے؟ تشددکون کرتا ہے؟ تشددکی نوبت کیوں آتی ہے؟ متاثرین پرتشدد کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

12 شکل 1 تجربے یا مشاہدے میں آنے والے پر تشدد واقعات کی اکثریت کی نوعیت (تعداد=542)  گالیاں اور بدزبانی دھکے دینا جان سے مارنے کی دھمکیاں ۔ عمارت اور طبی سہولیات کی توڑ پھوڑ کی دھمکیاں ۔ ہاتھاپائی فرنیچر توڑنا لوہے کی سلاخ، چاقو یا پستول دکھانا داخلے کے پھاٹک کو نقصان پہنچانا طبی آلات کی توڑپھوڑ دھماکاخیز مواد

13 شکل 2 تجربے یا مشاہدے میں آنے والے پر تشدد واقعات کے عوامل
تجربے یا مشاہدے میں آنے والے پر تشدد واقعات کے عوامل (تعداد=542) عام تصور یہ ہے کہ کراچی میں پیش آنے والے پر تشدد واقعات کے ذمہ دار، جن میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے عملے پر ہونے والا تشدد بھی شامل ہے، کسی سیاسی یا نظریاتی جماعت سے وابستہ لوگ ہیں ۔ تاہم اس تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ تشدد کے بیشتر واقعات کے ذمہ دار مریضوں کے رشتہ داوں اور تیمیار دار ہیں

14 شکل 3 پر تشدد واقعے میں کردار ادا کرنے والے غالب عوامل (تعداد=542)
پر تشدد واقعے میں کردار ادا کرنے والے غالب عوامل (تعداد=542) سہولت کار شرکأ کے تاثرات لیتے وقت ان کے ذاتی تجربات کے بارے میں پوچھے ۔ شرکأ کے جوابات کو تحقیق کی مدد سے سامنے آنے والے نتائج سے ملائے ۔ اس کے علاوہ یہ سوال پوچھے کہ وہ واقعات کو تشدد کیوں سمجھتے ہیں ؟ پوچھیں کہ کیا کسی پر چلانا تشدد کے زمرے میں آتا ہے ؟ ان سوالات کا مقصد تشدد اور اس کے اثرات کو سمجھنا ہے ۔ سہولت کار پوچھے کہ وہ انہیں ان واقعات کے بعد کیا محسوس ہوا۔

15 شکل 4 تشدد کا شکار ہونے والے فرد پر مرتب ہونے والے اثرات (تعداد=542)
تشدد کا شکار ہونے والے فرد پر مرتب ہونے والے اثرات (تعداد=542) اہم / بنیادی = بار بار واقع ہونے ولا ، غالب کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ایسے واقعات کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ حد سے زیادہ چوکنا یا محتاط ہونے کا کیا مطلب ہے؟ تقریباً 73% لوگ ایسے واقعات کے بعد بے حد محتاط اورچوکنا ہوجاتے ہیں۔

16 نتائج واضح کرتے ہیں کہ ۔۔۔
درج بالا نتائج واضح کرتے ہیں کہ طبی سہولیات فراہم کرنے والے افراد ایسے ماحول میں کام کر رہے ہیں جس میں کئی قسم کے تنازعات اور تشدد کی کئی اشکال موجود ہیں۔ یہ تنازعات اور تشدد کی مختلف اشکال دباؤ اور صدمے کے بعد پیدا ہونے والے جسمانی و ذہنی دباؤ (PTSD) کا باعث بن سکتی ہیں ۔

17 سرگرمی 2 اپنے ساتھی سے بات چیت کیجئے اور پھر روزمرہ زندگی میں خصوصاً کام کی جگہ پر پائے جانے والے تشدد کے سلسلے میں اپنے ذاتی تجربات باقی شرکاء کو بتائیے۔ آپ کس حد تک متاثر ہوئے؟

18 تشدد کا سامنا کرنے سے آپ کیسے متاثر ہو سکتے ہیں؟
Take feedback from the audience

19 آپ کےجسم میں کیا تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں؟
آپ کا اعصابی نظام ہارمونز کی دھار خارج کر تا ہے اور آپ کا جسم ہنگامی ردِعمل ظاہر کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ ہنگامی صورت حال میں خارج ہونے والے ہارمونز میں ایڈرینالین اور کورٹیزول شامل ہیں جو آپ کے جسم کو اضطراری حرکات کے قابل بناتے ہیں ۔ آپ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔ پٹھے تن جاتے ہیں۔ بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے ،سانسیں تیز ہو جاتی ہیں ۔ یہ تبدیلیاں اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ آپ خطرے سے لڑ سکیں یا پھر خطرے سے فرارکا راستہ اختیار کرکے اپنی حفاظت کرسکیں ۔

20 جارحیت یا فرار کا ردِ عمل ظاہر کرتے وقت آپ کے دماغ پر کیا گذرتی ہے؟
جارحیت یا فرار کا ردِ عمل ظاہر کرتے وقت آپ کے دماغ پر کیا گذرتی ہے؟ دماغ کاجذبات محسوس کرنے والا حصہ خطرہ محسوس کرتا ہے ۔ آپ پرخوف غالب آجاتا ہے ۔ تنقیدی فکر کی صلاحیت مفلوج ہوجاتی ہے۔ صورتِ حال کی نزاکت سمجھنے کی صلاحیت ساتھ چھوڑ دیتی ہے ۔ قوتِ فیصلہ کمزور پڑ جاتا ہے ۔ Frontal lobe (یعنی دماغ کا وہ حصہ جو منطقی سوچ اور فیصلہ کرنے میں مدد دیتا ہے) کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور limbic system (یعنی دماغ کاجذباتی حصہ) غالب آجاتا ہے ۔

21 بعد میں جسم پر کیا گذرتی ہے؟
جب خطرہ گزر جاتا ہے تو جسم اپنا قدرتی توازن دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دِل کی دھڑکن ،بلڈپریشر اورپٹھوں کا تناؤ سب واپس اپنی قدرتی حالت میں آ جاتے ہیں۔ کیا خطرہ ٹل جانے کے بعد ہر بار آپ کا جسم اپنا قدرتی توازن بحال کرپاتا ہے؟

22 نہیں زنا باالجبر کا شکار ہونے والی خواتین کی مثال دیں جو اس پُر تشدد واقعے کے بیس سال بعد بھی پیڑو کا درد (نافچہ) محسوس کرتی ہیں ۔ بعض صورتوں میں لوگ لوگ ایسے واقعات بھول جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ ان واقعات کی یاد تازہ ہونے پر ایک بار پھر تکلیف محسوس کرنے لگتے ہیں ۔

23 اگر آپ کا جسم قدرتی توازن بحال نہ کرپائے تو کیا ہوتا ہے؟
اگر آپ کا جسم قدرتی توازن بحال نہ کرپائے تو کیا ہوتا ہے؟ خطرے کی صورتحال کے دوران جو فاضل توانائی خارج ہو چکی ہوتی ہے وہ جسم میں باقی رہتی ہے اور بعد میں ذہنی دباؤ کی علامات ،یعنی صد مے کے بعد کے ذہنی و جسمانی دباؤ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ خطرہ ٹلنے کے بعد بھی بلڈ پریشربلند سطح برقرار رکھتا ہے ۔ آپ بغیر کسی وجہ کے بیداراور ہوشیار رہتے ہیں۔ نیند اور آرام نہیں کرسکتے ۔ جسم میں بغیر کسی وجہ کے درد رہتا ہے۔ مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے۔  

24 تشدد کا خطرہ برقرار رہنے کی صورت میں کیا ہوسکتا ہے؟
تشدد کا خطرہ برقرار رہنے کی صورت میں کیا ہوسکتا ہے؟ اگر تشدد کا خطرہ برقرار رہے تو آپ کو ذہنی دباؤ کی علامات (یعنی صدمے کے بعد ذہنی و جسمانی دباؤ) کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اس واقعے سے کس حد تک متاثر ہوئے ہیں۔

25 صدمے کے بعدجسمانی وذہنی دباؤ(PTSD)
صدمے کے بعدجسمانی و ذہنی دباؤ: کسی قسم کا جسمانی ،جذباتی نفسیاتی اضطراب جو خطرہ ٹل جانے اور حالات معمول پر آنے کے بعد بھی محسوس ہوتا رہے۔ تشدد یاصدمے کا شکار ہونا جذباتی اور/یا جسمانی ہیجان اس ہیجان کا چند ہفتوں تک جاری رہنا صدماتی اثر کے حامل کسی نفسیاتی ، جذباتی یا جسمانی دباؤ اور تناؤ کی مثال دیں جس میں اس صورتِ حال سے نمٹنے کا نظام ناکام ہوگیا ہو اور آپ صدماتی اثرات سے مغلوب ہوگئے ہوں۔

26 یاد رکھیں! صدمہ آپ کے جسم میں ذخیرہ ہو جاتا ہے؛
دماغ جسے فراموش کر دیتا ہے ،جسم ا سے یاد رکھتا ہے۔ بابیٹ روتھس چائلڈ

27 صدمے کے بعد جسمانی و ذہنی دباؤ (PTSD) کی علامات
پرتشدد واقعے کی یاد سے بچنا بری یادیں ڈراؤنے خواب تنہائی کا احساس منفی موڈ منفی خیالات کی رو کسی خطرے کے بغیر چوکنا رہنا

28 صدماتی واقعات کے جذباتی ردعمل
احساسِ جرم غصہ شرم پریشان کن خیالات کاتسلسل صدمہ اور بےیقینی خوف اداسی بےبسی صدماتی تجربے کے بعد خوف، افسردگی، اضطراب اور عدم اطمینان محسوس کرنا عام ہے۔ شرکأ کو ان نکات کی شناخت میں مدد دیں جب وہ مسلسل خوف اور تکلیف دہ یادوں میں الجھ کر رہ جائیں۔

29 گراف دیکھیں اور بتائیں کہ کیا آپ کے خیال میں کراچی میں طبی عملہ صدمے کے بعد کے جسمانی و ذہنی دباؤ میں مبتلا ہوسکتا ہے؟ اگر آپ ان علامات کا تقابل صدمے کے بعد ہونے والے جسمانی و ذہنی دباؤ کی علامات سے کریں تو آپ جان پائیں گے کہ یہ سب صدمے کے بعد پیدا ہونے والے جسمانی و ذہنی دباؤ کی علامات ہیں ۔ پہلی دو علامات منفی موڈ اور بے بسی کی علامات ظاہر کرتی ہیں ۔

30 سرگرمی 3 ان میں سے کتنی علامات آپ کے تجربے میں آئی ہیں؟
شرکأ کے کتابچے میں موجود ہدایات کی مدد سے ایک سرگرمی کرائیں۔

31 نسبتی صدمہ جب دوسرے یا عزیز(رشتہ دار) آپ کی تکلیف کونہ سمجھ پارہے ہوں۔
جب دوسرے لوگ آپ کی تکلیف کو محسوس نہ کر پا رہے ہوں تو اس سے آپ کی تکلیف اور بڑھ جاتی ہے۔ جب آپ کے اردگرد لوگ اس قسم کی باتیں کریں کہ ’’ارے اب اس کیفیت سے نکل بھی آؤ‘‘، ’’یہ تو تمھارے حصے کا کام ہے‘‘، ’’جو کچھ ہوا اس پراتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ چھوڑو اسے!‘‘ تو ایسی باتیں سن کر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کی کیفیت کو ٹھیک سے سمجھا نہیں جا رہا ، اس سے آپ کی تنہائی کا احساس بڑھ جاتا ہے اور آپ اپنے احساسات دوسروں کو بتانے سے کترانے لگتے ہیں۔ شرکأ کو بتائیں کہ جب دوسرے لوگ ، عزیز ، رشتہ دار صدمے کو نہیں سمجھ سکتے تو اس سے ذہنی دباؤ اور تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اس لئے قریبی دوستوں اور لوگوں کو اس بات کا احساس ہونا ضروری ہے کہ کوئی تشدد کے واقعے کا شکار ہوا ہے ۔ اگر وقت کم ہو تو اس سلائیڈ کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔

32 آپ کیا کر سکتے ہیں؟ مراقبہ
ورزش (اس سے ذخیرہ شدہ توانائی کے زائل کرنے میں مدد ملتی ہے اور آپ ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں ) ذہنی ارتکاز: دن کا کوئی ایک کام پوری توجہ سے کریں شرکأ سے پوچھیں کہ وہ اس ذہنی دباؤ سے بچنے کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں ۔ آپ ان کے ساتھ ذہنی ارتکاز کی مشق کرسکتے ہیں ۔ انہیں سیب چبانے کو کہیں ۔ انہیں ہدایت دیں کہ وہ اس کی ساخت، خوشبو، رنگ اور چبانے کے عمل کے دوران اس کے رس کو پوری طرح محسوس کریں ۔ انہیں بتائیں کہ آپ جو کام کریں پوری بیداری کے عالم میں کریں ۔ اس سے آپ کو تنازعات کے دوران فساد یا فرار کا ردِ عمل اختیار کرنے سے گریز کرنے میں مدد ملے گی ۔

33 طبیعت بحال کرنے کے طریقے
اپنے عزیزوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ پرتشدد واقعات یا صدمے سے متاثر ہونے والے دوسرے لوگوں سے رابطہ قائم کریں۔ اپنے ہسپتال میں سپورٹ گروپ قائم کریں۔ زبردستی خود کو ٹھیک ظاہر کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ اگرعلامات برقرار رہیں تو کسی معالج سے رابطہ کریں۔ کسی قریبی، قابلِ اعتماد آدمی کو بتائیں کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں۔

34 سرگرمی 4 تکلیف دہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنے طریقے وضع کریں۔ کوئی دو ایسے طریقے درج کریں جنہیں آپ دباؤ کم کرنے اور تشدد کے اثرات زائل کرنے کے لیے اپنے ہسپتال میں استعمال کر سکتے ہوں ۔ شرکأ کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ سپورٹ گروپس کے کام کے بارے میں چارٹس یا کاغذ پر لکھیں ۔

35 شکریہ

36 حصّہ دوم تشدد میں اضافہ اور کمی آپ نے پہلے حصے میں کیا سیکھا؟
تشدد میں اضافہ اور کمی آپ نے پہلے حصے میں کیا سیکھا؟ شرکأ سے سوال کریں۔

37 مقاصد اس حصے میں ہم: آنے والے تشدد کے خطرے کی علامات کی شناخت کریں گے؛
آنے والے تشدد کے خطرے کی علامات کی شناخت کریں گے؛ موجود حالات میں تشدد تک لے جانے والے عناصر سے واقف ہونگے۔ ممکنہ تشدد پر قابو پانے اور اس کی شدت میں کمی لانے میں مدد دینے والی حکمت عملیوں پر بات چیت کریں گے۔ اُن رویوں کی مشق کریں گے جو پرتشدد حالات کو وقوع پذیر ہونے سے روکتے اور تشدد کی شدت میں کمی لاتے ہیں۔ کراچی میں ہونے والی تحقیق کی روشنی میں وضاحت کریں ۔ تشدد کی اکثر صورتوں میں بدکلامی کی جاتی ہے ۔ اس حصے میں ہم ان طریقہ ہائے کار کو سمجھیں گے جن کی مدد سے ہم ان واقعات پر قابو پاسکتے ہیں جو باقاعدہ حملے کا باعث بن سکتے ہیں ۔

38 ردِعمل میں ہونے والا تشدد
تشدد کی اقسام دانستہ یا جارحانہ تشدد: باضابطہ طریقے سے بےرحمی کے ساتھ کیا جانے والا پرتشدد حملہ جس کا مقصد کوئی فائدہ حاصل کرنا ہو، مثلاً بم دھماکا ،ٹارگٹ کلنگ۔ جوابی اقدام: تحفظ کی صورتحال بہتر بنانا، تشدد کی جگہ سے دور ہٹ جانا۔ ردعمل میں ہونے والا تشدد: انتقام کی غرض سے کی جانے والی جذباتی، غصیلی جارحیت ،اشتعال دلانے کی کوشش پر اشتعال میں آ جانا ،غصے اور برہمی کی حالت میں کیا جانے والا جوابی اقدام: تشدد کی شدت میں کمی لانے کی تراکیب۔ دانستہ یا جارحانہ تشدد حفاظتی اقدامات ردِعمل میں ہونے والا تشدد شدت کم کرنے کے اقدامات شرکأ سے پوچھیں ردِ عمل میں ہونے والے اور دانستہ تشدد کی مثالوں کے بارے میں جن کا انہیں تجربہ ہوا ہو ۔ ان کے خیال میں ان واقعات پر کس حد تک قابو پایا جاسکتا تھا ؟ مریضوں کے تیمارداروں /خدمت گاروں کے جارحانہ پن پر قابو پانے کے لئے کون سی تراکیب کامیاب رہی ہیں؟

39  یہ تربیتی مواد صرف جوابی یا ردعمل میں ہونے والے تشدد کی روک تھام یا اس کی شدت میں کمی لانے کی تراکیب پر روشنی ڈالتا ہے۔

40 مشق شرکأ کو دو یا دو سے زیادہ چھوٹے گروپس میں تقسیم کریں اور انہیں منظرنامہ (سچوئشن ) دیں جس میں وہ ڈاکٹر ، نرس ، تیمار دار اور مشاہدہ کاروں کا کردار ادا کرتے ہوئے تنازعہ میں شدت اور کمی لانے کا مظاہرہ کریں۔

41 تشدد کی طرف بڑھنے کےعمل کا نقشہ تشکیل دیں
بڑے گروپ کو چار گروپس میں تقسیم کریں ۔ انہیں چارٹ اور کاغذ دیں اور انہیں کہیں کہ تنازعہ میں شدت کا نقشہ تشکیل دیں۔ بنیادی طور پر وہ نرس، ڈاکٹر ، چوکیدار اور مریض کے خدمت گار کے مابین مکالمہ لکھیں گے ۔ شرکأ اپنی مثالیں یا پھر کوئی آنکھوں دیکھا واقعہ بھی لکھ سکتے ہیں ۔ تمام گروپس اپنے چارٹ پیش کریں ۔ اس کے بعد شرکأ کو بات چیت کا موقع دیں کہ اور سوال کریں کہ صورتِ حال کا رُخ کس مقام پر تشدد کی جانب مڑ گیا اور یوں تناؤ پیدا ہوا ۔ انہیں یہ سمجھنے میں مدد دیں کہ ایسا کوئی واقعہ ناگہانی یا قدرتی آفت کے طور پر پیش نہیں آیا ۔ ایسے تمام واقعات ہمارے دوسروں سے رویوں اور انداز سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر ہم پہلے سے تیار ہوں ، تو مسائل پیدا ہونے سے پہلے تنازعات کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے ۔

42 تشددمیں شدت کے بارےمیں چندحقائق
تشددمیں شدت اُس وقت پیداہوتی ہےجب کوئی شخص کسی بحث میں ہرقیمت پرجیتناچاہتا ہو صورتحال میں بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی دوسرے کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ تشدد کی صورتِ حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دو افراد کے درمیان تنازع ہو اور ان کے اقدامات ہر طرح کے قابو سے باہر ہو جائیں ۔ جب آپ پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو آپ کا پہلا ردِ عمل اپنا دفاع کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے تناؤ پیدا ہوتا ہے اور ایڈرنالین (ایک خاص قسم کا ہارمون) کا اخراج ہوتا ہے۔ حملہ آور بھی اسی کیفیت سے گذر رہا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دو افراد قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ اپنے آپ کو پرسکون رکھیں تو صورتِ حال خود بخود قابو میں آجائے گی ۔

43 تشدد کی ابتدائی علامات  مشتعل شخص اور دوسروں کی جسمانی حرکات و سکنات کا تناؤ میں آجانا۔ ذاتیات پر اترنا۔ اپنی بات پر زور دینے کے لیے دوسرے شخص کوہاتھ لگانا یا گرفت میں لینا۔ آواز کا اونچا ہونا تیز بولنا بہت زیادہ پسینہ آنا ہاتھوں کی تیزحرکات: مٹھیاں بھینچ لینا ،کولہوں پر ہاتھ رکھ لینا وغیرہ۔ شرکأ کو بتائیں کہ تشدد کی صورتِ حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ کسی بحث میں جیتنا چاہتے ہوں ۔ صورتِ حال میں شدت اُس وقت آتی ہے جب آپ فیصلہ سازی شروع کردیں ۔ شدت اس لئے پیدا ہوتی ہے کیونکہ دو لوگ تنازعے کے فریق ہیں اور وہ معمول کی صورتِ حال سے باہر نکل آئے ہیں ۔ جب آپ پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو آپ کا پہلا ردِ عمل اپنا دفاع کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے تناؤ پیدا ہوتا ہے اور ایڈرنالین (ایک خاص قسم کا ہارمون) کا اخراج ہوتا ہے ۔ حملہ آور بھی اسی تجربے سے گذر رہا ہوتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں دو افراد قابو سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ اگر آپ اپنے آپ کو پُرسکون رکھیں تو صورتِ حال خود بخود قابو میں آجائے گی ۔

44 جارحانہ رویے اور تشدد میں اضافے کے اشارے
شائستگی اور نرمی سے جواب دیں ،پرسکون دکھائی دیں سامنے کھڑےنہ ہوں بلکہ اس کی ایک طرف کھڑےہوں ہاتھ کھول دیں ۔ تواتر کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کریں ۔ آنکھوں میں متواتر دیکھنے سے گریز کریں۔ باربار اور بہت زیادہ سوالات کندھے اوپر کر کے رعب ڈالنے کی کوشش بھنچے ہوئے جبڑے اور دانت پیسنا بھینچی ہوئی مٹھیاں اور اٹھی ہوئی انگلیاں گھورنا اگر وقت کم ہوتو اس وقت کی بجائے مشق کے دوران بات کریں ۔ آپ کو ہر نکتے پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔

45 جارحانہ رویے اور تشدد کے بھڑکنے کے اشارے
غصے میں آئے ہوئےشخص سےمناسب فاصلہ رکھیں اشتعال دلانے یا جواب میں طنز کرنے سے گریز کریں پرسکون آواز میں سوالات کر کے معلومات حاصل کریں۔ ان سے ان کا نام پوچھیں اسے نرمی سے ہدایات دے کر ایک جگہ بیٹھنے پر آمادہ کریں آرام کرنے کا موقع دیں ۔ ذاتیات پر اترنا جارحانہ یا طنز آمیز زبان کا استعمال چیخنا چلانا اِدھراُدھر ٹہلنا تیزتیز سانس لینا ۔ اگر وقت کم ہوتو اس وقت کی بجائے مشق کے دوران بات کریں ۔ آپ کو ہر نکتے پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔

46 خطرناک صورتحال میں مشتعل جذبات کو معمول پر لانا
خطرناک صورتحال میں مشتعل جذبات کو معمول پر لانا کسی مشتعل شخص سے معقول اور دلائل پر مبنی گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ لہا تشدد کی شدت کو کم کرنے کے سلسلے کی پہلی کوشش مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کر کے اس سطح پر لانا ہوتا ہے جہاں سے معقول بات چیت ممکن ہو سکے۔ تشدد کی شدت کم کرنے کے تمام طریقے جبلی ردعمل کے مخالف عمل کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہمارا ذہن مشتعل جذبات کا تجربہ کرتے ہی جسم کو جوابی اشتعال کے لیے تیار کرنا شروع کردیتا ہے یا پھر تشدد کی جگہ سے فرارہونے یا اعصاب کو سن کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمیں ان طریقوں کی مشق کرتے رہنا ہو گا اس سے قبل کہ انھیں سچ مچ استعمال کرنے کی نوبت آئے۔ اس مشق کا مقصد یہ ہے کہ یہ طریقے مسلسل مشق سے ہماری فطرتِ ثانیہ بن جائیں ۔ وضاحت کریں کہ تنازعہ کی شدت میں کمی لانے کے طریقے ہمارے عام ردِ عمل سے مختلف ہیں ۔ ہمارا ذہن جسم کو خوف کی صورت میں فساد، فرار یا پھر مفلوج ہوجانے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس لئے تنازعہ کی شدت میں کمی لانے کا طریقہ ہمارے عمومی جسمانی ردِ عمل سے مختلف ہے۔

47 تشدد کو قابو میں رکھنے کے موزوں رویے
تشدد کو قابو میں رکھنے کے لیے: مخاطب کو نظرانداز نہ کریں فیصلہ سنانے سے گریز کیجئے دفاعی انداز اختیار نہ کریں طنز کا استعمال مت کیجیے اپنی بات پر قائل کرنے کی کوشش نہ کریں ردعمل کا اظہار نہ کریں

48 سیکھے گئے نکات کا اعادہ جب آپ آپے سے باہر ہو جائیں تو آپ کیا کریں گے؟ اس حصے کے اہم نکات کا خلاصہ کریں ۔ شرکا کو موقع دیں کہ وہ مل جل کر غوروفکر کریں اور جو کچھ انہوں نے سیکھا ہے اسے تحریر کریں ۔

49 حصہ سوم مریض سے بات چیت کے آداب

50 مقاصد اس حصے کے اختتام تک آپ اس قابل ہو جائیں گے کہ:
پرتشدد حالات کو ٹھنڈا کرنے/ٹالنے میں پیشہ ورانہ رویے اور بات چیت کی اہمیت کو محسوس کرسکیں؛ مریضوں ،طبی امداد کی ٹیموں اور ساتھیوں کے ساتھ موثر بات چیت کی مہارت کا مظاہرہ کریں؛ بری خبر دینے کے انداز کا مظاہرہ کریں۔

51 باہمی گفتگو کی بنیاد: مستعد سماعت
آپ مریض کو کیسے بتا سکتے ہیں کہ : ان سے نظریں ملائیں ،رخ ان کی طرف کریں جو سنا ہے اسے دہرائیں آپ نے ان کی بات سن لی ان کی بات کا جو مطلب آپ سمجھے ہیں وہ بتائیں ایسےجملوں کا استعمال بہتر ہے؛ ’’آپ کا مطلب ہے‘‘ ،’’ آپ چاہتے ہیں‘‘ آپ نےان کی بات سمجھ لی آپ کے خیال میں وہ جیسا محسوس کر رہے ہیں وہ بیان کریں ان کی تکلیف پر افسوس کا اظہار کریں آپ نے ان کی تکلیف/جذبات محسوس کیے

52 مستعد سماعت پر معاون ویڈیو
چند ویڈیوز بھی تربیت کار کے دستی مواد کا حصہ ہیں ۔ آپ ان ویڈیوز کا کوئی بھی حصہ استعمال کرسکتے ہیں۔

53 مریض سے بات چیت کے عمومی آداب
انہیں پہلے سلام کیجئے۔ اپنا تعارف کرائیے اور بتائیے کہ آپ کیا کام کرتے ہیں۔ تیماردار کوبتائیے کہ آپ مریض کا معائنہ کرنے کے فوراً بعد ان سے بات کریں گے۔ مریض کا معائنہ کیجیے اور اپنے معائنے کے نتائج بتائیے۔ مریض کی حالت کے بارے میں واضح بات کیجئے اور واضح ہدایات دیجئے۔ مناسب اطلاعات مریض اور تیماردار (یا دونوں) تک پہنچانا ضروری ہیں۔ ان اطلاعات میں طبی ،انتظامی ،علاج اورصحت یابی کی توقعات کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔ اس سے مریض کو اپنا خیال رکھنے کا احساس ہوتا ہے اور انفرادی صحت کے تصور کو تقویت ملتی ہے۔

54 مریض سے بات چیت کے عمومی آداب
انہیں بتائیے کہ مریض کے مسئلے کے کون کون سے متبادل علاج موجود ہیں۔ ان متبادل طریقہ ہائے علاج کے بارے میں انہیں خود فیصلہ کرنے دیجئے ،فوراً ان کی طرف سے خود فیصلہ مت کیجئے۔ اس سے انہیں اپنے اختیار کا احساس ہو گا۔ مریض کی باتوں سے جو کچھ آپ کی سمجھ میں آیا ہے وہ اسے بتائیے۔ ’’اچھا تو یہ علامات آپ کو وقفے وقفے سے دو مہینے سے سامنے آرہی ہیں۔‘‘ طبی اصطلاحات کے استعمال سے گریز کریں۔ اہم معلومات ٹھر ٹھر کر بتائیے۔ خاص طور پر منفی اطلاعات دیتے وقت جلدبازی ہرگز نہ کریں۔ اگر آپ کو اپنی بات دہرانی پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

55 مریض سے ہمدردی کا مظاہرہ کریں ہمدردی کیا ہے؟
دوسرے شخص کی تکلیف اور خوشی محسوس کرنے کی صلاحیت۔ دوسرے شخص کے بارے میں دوٹوک انداز سے تنقید سے اجتناب ۔ تناظر قائم کرنا: معاملے کو دوسرے شخص کے نقطۂ نگاہ سے دیکھنا۔ دوسرے شخص کے احساس کو سمجھنا اور جو سمجھا ہے وہ اسے بتانا۔ (’’آپ بہت پریشان لگ رہے ہیں۔‘‘) حل پیش کرنے کے بجائے مدد پیش کرنا۔ (یعنی ’’رونے سے کیا ہو گا‘‘ کی بجائے کہیے: "میں آپ کی کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟‘‘) وضاحتیں پیش کرنے یا مسئلے پر اپنی رائے دینے سے گریز کریں ۔ مریض کو زبردستی مثبت ہونے کی تلقین نہ کریں ( مثال کے طور پر ، تم ان نعمتوں پر غور کیوں نہیں کرتے جو تمہیں میسر ہیں ؟ تم چیزوں کو مثبت زاویے سے کیوں نہیں دیکھتے ؟)

56 دوسرےکی تکلیف کااحساس کرنےمیں کیاچیزمددگار ہے؟ مِرر نیورون
دوسرےکی تکلیف کااحساس کرنےمیں کیاچیزمددگار ہے؟ مِرر نیورون کِسی دوسرے کو مسکراتا دیکھ کر آپ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ کِسی دوسرے کے آنسو دیکھ کر آپ کی آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں چاہیں آپ کو اصل بات کا پتہ نہ بھی ہو۔ اِن مثالوں میں آپ کے مِرر نیورون فعال ہو جاتے ہیں، اُن کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات اور حرکات کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں جیسے مِرر یعنی آئینہ کرتا ہے، اور دوسروں کے احساسات سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ ایک خودکار اور غیر ارادی (جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں) ذہنی عمل ہے۔

57 دردمندی سے تھکاوٹ(کمپیشن فٹیگ)
یہ وہ کیفیت ہے جب آپ مزید ہمدردی کا اظہار نہیں کرسکتے ۔ ڈاکٹرز اور طبی عملے میں یہ صلاحیت وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے اور وہ دردمندی سے تھکاوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ اس قدرمصائب اورتکالیف دیکھتے ہیں کہ کچھ وقت بعد اگرچہ ان کے مرر نیورونز واقعے کا اندراج تو کرتے ہیں لیکن اُن کو احساس نہیں ہوتا۔ دردمندی سے تھکاوٹ کی علامات دائمی تھکن سے مشابہت رکھتی ہیں جن کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے ۔

58 اپنا وقت اور توجہ دینے کا شکریہ
آپ کے پیشے میں اپنا خیال رکھنا نہایت اہم ہے جن ترکیبوں پر بات کی گئی ہیں انھیں آزمائیں اور اپنے تاثرات دیں تشدد سے نمٹنے کی صرف یہی ترکیبیں نہیں ہیں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں مل کرامدادی نیٹ ورک بنائیں تشدد آپ کے کام کا حصہ نہیں ہے، اور نہ اس کا کوئی جواز ہے اگر آپ تشدد سے متاثر ہوئے ہوں تو مزید مدد طلب کریں

59 بری خبر سنانا

60 مشق گروپ کو دو چھوٹے گروپس میں تقسیم کریں اور انہیں ایک منظر نامہ (سچوئشن) دیں جس میں وہ تشدد کی شدت میں اضافے اور کمی کا مظاہرہ کرسکیں۔ رول پلے کے دوران ڈاکٹر، نرس ، تیماردار اور مشاہدہ کار کے کردار ادا کئے جاسکتے ہیں۔

61 بری خبر کیا ہوتی ہے؟ ’’کوئی ایسی اطلاع جس سے مریض کے اپنے مستقبل کے بارے میں خیالات یکسرتبدیل ہو جائیں۔‘‘ (بک مین ،1992) ’’۔۔۔ ایسی صورت حال جہاں مکمل ناامیدی کا احساس ہو ،کسی شخص کی ذہنی یا جسمانی تندرستی کو خطرہ ہو ،کسی معمول کی زندگی کے درہم برہم ہونے کا اندیشہ ہو ،یا اس شخص کی زندگی کے لیے بہت کم چیزوں کا انتخاب باقی رہنے کی اطلاع دی گئی ہو۔

62 بری خبر دینے کا طریقہ بہت اہم ہے
مریضوں یا تیمارداروں کے ناخوش ہونے کی وجہ وہ کچھ نہیں ہوتا جو وہ سن رہے ہوتے ہیں بلکہ اس کی وجہ بات کرنے کا وہ انداز ہوتا جسے اختیار کرکے وہ خبر سنائی جاتی ہے۔ غیر تسلی بخش انداز کی یہ وجوہات ہوسکتی ہیں: ڈاکٹر بات نہیں سن رہا یا یوں لگ رہا ہے کہ وہ سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ڈاکٹر طبی اصطلاحات استعمال کر رہا ہے۔ ڈاکٹر مریض کو خود سے غیر اہم اور حقیر سمجھتے ہوئے بات کررہا ہے۔

63 پہلا قدم: ملاقات طے کرنا
اس بات کا انتظام کریں کہ خاندان کے اہم ارکان ملاقات میں موجود ہوں؛ ملاقات کے لیے کسی علیحدہ، نجی جگہ کا انتخاب کریں (ایسی جگہ منتخب کریں جہاں کوئی تیز دھار آلات یا ضرر رساں مواد موجود نہ ہوں جو متشدد یا جارحانہ رویہ بھڑکنے کی صورت میں آپ کےخلاف استعمال کیے جا سکیں ) مثالی صورتِ حال میں آپ کے ساتھ طبی عملےکا کوئی اورفردہونا چاہیئے (اگریہ ممکن نہ ہو تو دوسرے ڈاکٹروں/نرسوں/استقبالیہ کے لوگوں/محافظ کو پتہ ہونا چاہیئے کہ آپ مریض/تیماردار کو بری خبر دے رہے ہیں)۔ ملاقات کے لیے آنے والوں سے احترام کے ساتھ پیش آئیں؛ انہیں ان کے مناسب ناموں سے مخاطب کریں، ان سے مناسب ،آرام دہ فاصلہ رکھ کر بیٹھیں ،اپنی حرکات و سکنات پر پورا دھیان دیں ،نظریں ملا کر بات کریں۔ مریض یا تیماردارکی جسمانی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں اور جارحانہ رویے پیدا ہونے اور متشدد رویے کی علامات کا دھیان رکھیں (اِس بات کو یقینی بنالیں کہ آپ ایسی جگہ بیٹھیں یا کھڑے ہوں جہاں سے آپ آسانی اور حفاظت سے باہر نکل سکیں (تا کہ مریض/ تیماردار کے تشدد پر اتر آنے کی صورت میں جلدی سے باہر جا سکیں) یاد رکھیں۔۔۔ اگر خبر سنجیدہ نوعیت کی ہے یا مریض کا انتقال ہو گیا ہے تو تیمارداروں میں سے کسی سمجھدار شخص کو ایک علیحدہ کمرے میں لے جائیں۔ بری خبر کو سنانے میں دیر لگائیں اور پہلے انہیں کہیں کہ مریض کی حالت نازک ہے (چاہے مریض کا انتقال بھی ہو چکا ہو)۔ اِس سے اُن کی توجہ بٹ جائے گی اور آپ حفاظتی انتظامات کر سکیں گے تا کہ ممکنہ نتائج سے نمٹ سکیں۔ بری خبر کے نتیجے میں ردِعمل اور تشدد کے امکان کی حامل زیادہ خطرناک صورتِ حال ،مثلاً عوامی شخصیت/ ہردلعزیز شخصیت/ سیاستدان یا مذہبی رہنما کے انتقال کی صورت میں بری خبر دینے سے پہلے ہمیشہ قانون نافز کرنے والے اداروں/محافظوں کو بلا لیں۔

64 دوسرا قدم: دریافت کرنا کہ مریض یا تیماردار کو پہلے سے کیا کچھ معلوم ہے۔
اپنی پوری توجہ اور سننے کی مہارت استعمال کرتے ہوئےیہ جاننے کی کوشش کریں کہ انھیں (مریض یا تیماردار کو) صورت حال کا کس حد تک اندازہ ہے۔ ان پر واضح کر دیں کہ آپ غور سے ان کی بات سن رہے ہیں اور آپ کو صورت حال کے بارے میں ان کی کہی ہوئی باتوں کو سمجھنے میں پوری دلچسپی ہے۔ جارحانہ رویے اور تشدد کے بھڑکنے کے اشاروں پر دھیان رکھیں، مثلاً: جارحانہ یا طنز آمیز زبان کا استعمال چیخنا چلّانا اِدھراُدھر ٹہلنا تیز تیز سانس لینا الٹے سیدھے یا منفی جوابات دینا باربار اور بہت زیادہ سوالات کندھے اوپرکر کے رعب ڈالنے کی کوشش بھنچے ہوے جبڑے اور دانت بھنچی ہوئی مٹھیاں اور اٹھی ہوئی انگلیاں گھورنا دوسرے شخص کے ذاتی دائرے میں گھسنا

65 تیسرا قدم: معلومات میں شریک کریں۔
تیسرا قدم: معلومات میں شریک کریں۔ مریض یا تیمارداروں کو جتنا کچھ معلوم ہے اس کے لحاظ سے دی جانے والی معلومات کو ترتیب میں بیان کریں۔ اس سے ان میں یہ اعتماد پیدا ہو گا کہ آپ نے ان کی باتیں غور سے سنی ہیں اور آپ ان کی تشویش میں شریک ہیں۔ بری خبر دیتے وقت، یقینی بنائیں کہ چھوٹے جملے استعمال کریں اور بات کرتے وقت بار بار وقفہ دیں۔ طبی اصطلاحات یا مشکل الفاظ استعمال نہ کریں ۔۔۔ گفتگو میں خاموشی کے لیے وقفہ رکھیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ کلائنٹ (مریض یا تیماردار) کسی اہم چیز کو سمجھنے یا محسوس کرنے میں مصروف ہے۔ آنسوؤں کے لیے گنجائش رکھیں؛ انھیں ٹشوپیپر پیش کریں تاکہ انھیں اندازہ ہو کہ رونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر ثقافتی لحاظ سے مناسب ہو تو مخاطب کا کندھا یا بازو چھو کر یا اس کے تھوڑا قریب کھسک کر اسے اس بات کا احساس دلائیں کہ جذبات کا اظہار کرنا کوئی نامناسب بات نہیں ہے۔

66 چوتھا قدم: مریض کے ردعمل کو پہچانیں اور تسلیم کریں۔
چوتھا قدم: مریض کے ردعمل کو پہچانیں اور تسلیم کریں۔ حقیقت پسندانہ حد تک امید دلائیں لیکن انھیں ضرورت سے زیادہ دلاسا دینے سے اجتناب کریں۔ یاد رکھیں! ’’بری خبر سنانے کے عمل کی کامیابی یا ناکامی اس بات پر منحصر ہے کہ مریض کا ردعمل یا تاثر کیا ہوتا ہے اور آپ اس کا جواب کس طرح دیتے ہیں۔‘‘ اگر مریض/تیماردار تشدد پر اتر آئے یا آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو فوراً کمرے سے نکل جائیں (اگر دستیاب ہو تو افراتفری کا بٹن دبائیں یا حفاظتی الارم بجائیں)۔

67 پانچواں قدم: اس بات کااظہارکریں کہ آپ مریض/تیماردارکےمسائل کوسمجھتےہیں۔
اگر مریض کی جان نہ بچ سکی ہو تو ہر ممکن مدد اور اعانت فراہم کریں۔ تیماردار کو تسلی دیں، بیٹھنے کی جگہ مہیا کریں، ایمبولینس سروس سے رابطہ قائم کریں اور کاغذی کارروائی کو جلد سے جلد مکمل کرانے کی کوشش کریں۔ اس دوران انہیں پہنچنے والے صدمے کے بارے میں ہمدردی اور احترام کا اظہار کریں۔

68 شکریہ


Download ppt "تشدد پرقابو پانا اور اس کی شدت میں کمی لانا"

Similar presentations


Ads by Google